ایک اسلامی مرکز غلط عقیدہ کی تعلیمات دیتے ہیں ، کیا ہم لوگوں کو اس سے خبردار کریں؟

سوال: آسٹریلیا میں ایک اسلامی مرکز ہے جس کے طلباء نے گواہی دی ہے کہ اس مرکز میں صوفی تعلیمات ہیں۔ ان کے عقیدہ میں بھی سنگین مسائل ہیں کیونکہ وہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو اللہ نے اپنے بارے میں قرآن اور صحیح حدیث میں کبھی نہیں کہی ہیں۔ اس اسلامک مرکز سے با ادب رابطہ کیا گیا اور وضاحت کے لیے ان سے چند سوالات پوچھے گئے۔ الغرض، وہ اپنے عقیدہ کے بارے میں کچھ بھی جواب دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر رہے ہیں کہ اس کی وضاحت کرنا بہت زیادہ ہے (حالانکہ صرف چھ سوالات تھے)۔ کیا برادری کو ان لوگوں کے خلاف اگاہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنے عقیدہ کو واضح نہیں کر رہے ہیں؟ یا ہمیں انتظار کرنا چاہئے جب تک کہ وہ ہمارے سوالات کا جواب نہ دیں، جو کہ ناممکن لگتا ہے؟

جواب: الحمد للہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ کے معاملات ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم ہیں اورگمراھی میں پڑنے سے بچنا چاہیے۔ نہ صرف اپنی حفاظت کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی گمراھیوں سے خبردار کرنا چاہیے تاکہ ان کی حفاظت ہو سکے۔

الغرض، لوگوں کے بارے میں بات کرنا ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اور ان کی تعریف کرنا یا ان پر تنقید کرنا ایسی چیز ہے جسے ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہیے۔ بہت سے علماء ان امور پر بات کرنے سے گریز کریں گے کیونکہ غیبت گناہ کبیرہ ہے اور اگر غیبت اسلامی کارکنوں، علماء یا مصلحین کے بارے میں ہو جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے تو گناہ اور بڑھ جاتا ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی( اللہ ان سے راضی ہو) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون اور مال اور اس کی عزت حرام ہے”. اسے مسلم (2564) نے روایت کیا ہے۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس معاملے کو علماء کے ذریعے حل کیا جائے جو شواہد کی جانچ کرے، طلبہ سے بات کرے اور اس فیصلے پر پہنچے کہ اس مرکز کی مذمت کی جائے یا نہیں۔ اگر ہر شخص دوسروں کے خلاف فیصلہ کرنے اور تنبیہ کرنے لگے تو افراتفری پھیل جائے گی۔

یہ معاملہ اہل علم پر چھوڑ دیں جو اپنی حکمت سے اس کو حل کریں گے۔ ہر شہر میں دانشمند اور قابل علماء موجود ہیں۔ ان تک پہنچیں اور ان کی مدد لیں۔

اگر اہل علم اور قابل علماء کی طرف سے ان کے خلاف یہ ثابت ہو جائے کہ وہ غلط اور منحرف عقیدہ کو فروغ دے رہے ہیں تو ان کے خلاف لوگوں کو خبردار کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

مزید یہ کہ لوگوں کو اگاہ کرنا آسان ہو جاتا ہےاگر ہمارے پاس اہل علم کےفتوے موجود ہوں۔ ایسے معاملات کے لیے یہ سب سے محفوظ اور بہترین طریقہ ہے۔

واللہ اعلم (اور اللہ بہتر جانتا ہے)