جواب: الحمد لله
هاں،عذاب قبر حقيقت هےجوقران و حديث سے ثابت هے.اہلسنہ والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قبر اور برزخ والی زندگی (یعنی موت اور آخرت کے بیچ کا مرحله)میں سزا اور عذاب هو گا۔اس میں برکت اور خوشیاں بھی ہوں گی بندے کے اعمال کے حساب سے۔
دلیل:
1) قرآن سے:
آیت:” اور اب قبر میں دوزخ كى آگ ہے کہ وہ لوگ( ہر ) صبح اور شام اس كے سامنے لا کھڑے کئے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت برپا ہو گی( حكم ہو گا) فرعون کے لوگوں کو سخت سے سخت عذاب میں جھونک دو”؟( سورۃ غافر 40: 46)
( سورۃ غافر)
النّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَ يَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
الله كہتا ہے کہ فرعون کے لوگوں کو عذاب میں ڈالا جا رہا ہے صبح اور شام، حالانكه وہ لوگ مر چکے ہیں
ابن کثیر کہتے ہیں : یہ آیت کریمہ اہل السنه والجماعت کے عذاب قبر كے متعلق سب سے اہم دلیل ہے ۔اللہ کہتا ہے اور اب تو قبر میں دوزخ کی آگ ہےکہ وہ لوگ( ہر ) صبح اور شام اسکے سامنے لا کھڑے کئے جاتے ہیں ۔۔۔”[تفسیر ابن کثیر،4/82]
2) حديث:
عائشہ( رضی اللہ عنھا) زوجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے ” اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر، و اعوذ بک من فتنة المسيح الدجال واعوذبك من فتنة المحيا والممات ، اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم،( یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں دجال کے فتنے سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے، یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور نقصان سے )”( البخاری اور مسلم )
وفي حديث عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة:” اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر و أعوذ بك من فتنة المسيح الدجال واعوذبك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم( رواه البخاري ومسلم )
اس حدیث میں اہم پوائنٹ یہ ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے ۔یہ ایک دلیل ہے جو عذاب قبر کی تصدیق کرتی ہے ۔کسی نے عذاب قبر کا انکار نہیں کیا سوائے معتزلہ اور ایسے ہی کچھ گمراہ فرقے ۔
واللہ اعلم( اور اللہ سب سے بہتر جاننے والا ہے )