کیا لانولین حلال ہے؟ کھانے پینے اور اس میں موجود اشیاء کے استعمال کا حکم

سوال: بہت سی کھانے کی مصنوعات میں لینولین ‘Lanolin’ کو بطور جزو استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا لانولین حلال ہے اور ایسی کھانے کی اشیاء کا استعمال حلال ہے؟

جواب: لینولین ‘Lanolin’ ایک چربی دار پیلا مادہ ہے جو بھیڑوں کی اون سے نکالا جاتا ہے۔ اسے اون موم یا اون کی چکنائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ تو کیا اسلام میں لینولین حلال ہے؟ لینولین سے بنے کھانے کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، اگر اسے بھیڑ کی اون سے نکالا جائے۔

اگر بکری کو شریعت کے طریقے سے ذبح کیا گیا ہو تو معاملہ صاف ہے، کیونکہ یہ وہ جانور ہے جو پاک ہے اور اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے، اور اسے شریعت کے طریقے سے ذبح کیا گیا ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بال (اون) اور دوسرے حصے پاک ہیں۔

لیکن اگر زندہ حالت میں اس سے اون لی گئی ہو، یا اسے صحیح طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو، تو اہل علم کا زیادہ صحیح قول(کہنا) یہ ہے کہ تمام جانوروں کے بال پاک ہیں، چاہے وہ جانور شریعت کےطریقے سےذبح نہ کیا گیا ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام بال، پنکھ اور اون پاک ہیں، چاہے وہ کھائے جانے والے جانور کے ہوں یا نہ کھائے جانے والے جانور کا چمڑا، اور چاہے وہ زندہ یا مردہ جانور سے لیا گیا تھا۔ علماء کے اقوال میں سے یہ سب سے زیادہ صحیح ہونے کا امکان ہے۔ [اختتام از مجموع الفتاویٰ (21/38)]

حالانکہ ایک قول یہ ہے کہ اون اور بال عام طور پر ناپاک ہیں، لیکن اگر وہ کسی ایسےجانور سے نہ لیے گئے ہوں جسے شریعت کے طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، تو یہ (لینولین) وہ مادہ ہے جو اون سے نکالا جاتا ہے، اس لئے اب وہ ناپاک بالوں جیسا نہیں رہا جس سے یہ لیا گیا تھا۔بلکہ یہ ایک الگ مادہ میں تبدیل ہو گیا ہے، اور استحالہ (تبدیلی) کے اس عمل سے پاک اور حلال ہو گیا ہے۔

واللہ اعلم (اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے)۔

ایک اسلامی مرکز غلط عقیدہ کی تعلیمات دیتے ہیں ، کیا ہم لوگوں کو اس سے خبردار کریں؟

سوال: آسٹریلیا میں ایک اسلامی مرکز ہے جس کے طلباء نے گواہی دی ہے کہ اس مرکز میں صوفی تعلیمات ہیں۔ ان کے عقیدہ میں بھی سنگین مسائل ہیں کیونکہ وہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو اللہ نے اپنے بارے میں قرآن اور صحیح حدیث میں کبھی نہیں کہی ہیں۔ اس اسلامک مرکز سے با ادب رابطہ کیا گیا اور وضاحت کے لیے ان سے چند سوالات پوچھے گئے۔ الغرض، وہ اپنے عقیدہ کے بارے میں کچھ بھی جواب دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر رہے ہیں کہ اس کی وضاحت کرنا بہت زیادہ ہے (حالانکہ صرف چھ سوالات تھے)۔ کیا برادری کو ان لوگوں کے خلاف اگاہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اپنے عقیدہ کو واضح نہیں کر رہے ہیں؟ یا ہمیں انتظار کرنا چاہئے جب تک کہ وہ ہمارے سوالات کا جواب نہ دیں، جو کہ ناممکن لگتا ہے؟

جواب: الحمد للہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ کے معاملات ایک مسلمان کے لیے سب سے اہم ہیں اورگمراھی میں پڑنے سے بچنا چاہیے۔ نہ صرف اپنی حفاظت کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی گمراھیوں سے خبردار کرنا چاہیے تاکہ ان کی حفاظت ہو سکے۔

الغرض، لوگوں کے بارے میں بات کرنا ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اور ان کی تعریف کرنا یا ان پر تنقید کرنا ایسی چیز ہے جسے ہلکے میں نہیں لیا جانا چاہیے۔ بہت سے علماء ان امور پر بات کرنے سے گریز کریں گے کیونکہ غیبت گناہ کبیرہ ہے اور اگر غیبت اسلامی کارکنوں، علماء یا مصلحین کے بارے میں ہو جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے تو گناہ اور بڑھ جاتا ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی( اللہ ان سے راضی ہو) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر اس کا خون اور مال اور اس کی عزت حرام ہے”. اسے مسلم (2564) نے روایت کیا ہے۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس معاملے کو علماء کے ذریعے حل کیا جائے جو شواہد کی جانچ کرے، طلبہ سے بات کرے اور اس فیصلے پر پہنچے کہ اس مرکز کی مذمت کی جائے یا نہیں۔ اگر ہر شخص دوسروں کے خلاف فیصلہ کرنے اور تنبیہ کرنے لگے تو افراتفری پھیل جائے گی۔

یہ معاملہ اہل علم پر چھوڑ دیں جو اپنی حکمت سے اس کو حل کریں گے۔ ہر شہر میں دانشمند اور قابل علماء موجود ہیں۔ ان تک پہنچیں اور ان کی مدد لیں۔

اگر اہل علم اور قابل علماء کی طرف سے ان کے خلاف یہ ثابت ہو جائے کہ وہ غلط اور منحرف عقیدہ کو فروغ دے رہے ہیں تو ان کے خلاف لوگوں کو خبردار کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

مزید یہ کہ لوگوں کو اگاہ کرنا آسان ہو جاتا ہےاگر ہمارے پاس اہل علم کےفتوے موجود ہوں۔ ایسے معاملات کے لیے یہ سب سے محفوظ اور بہترین طریقہ ہے۔

واللہ اعلم (اور اللہ بہتر جانتا ہے)

کیا ہوٹل، ریستوران اور بازار میں کھانا اسلام میں جائز ہے؟

سوال: کیا اسلام میں ہوٹل، ریستوران اور بازار میں کھانا جائز ہے؟ میں نے ایک حدیث پڑھی جس میں کہا گیا ہے کہ "بازار میں کھاناھلکے پن کی نشانی ہے۔” یہ کتنا سچ ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بازاروں، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانا حرام ہے؟

جواب: الحمد للہ۔

ہوٹل، ریستوران اور بازار میں کھانا کھانے کی اسلام میں اجازت ہے۔ صحیح دلیلوں کے مطابق ایسا کرنے میں کوئی ممانعت یا ناپسندیدگی نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی کہ بازاروں میں کھانا ناپسندیدہ عمل ہے ایک ضعیف حدیث سے پیدا ہوتا ہے جو لوگوں میں بہت عام ہے۔

زیرِ بحث حدیث صحیح نہیں ہے۔

مشہور حدیث "بازار میں کھاناھلکے پن کی نشانی ہے” ایک ضعیف حدیث ہے جو ثابت نہیں ہے۔

اسے طبرانی نے "الکبیر” (7977) میں اور ابنِ عساکر نے اپنی "تاریخ” (45/345) میں ابوامامہ کی حدیث سے بہت ضعیف راویوں کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ خطیبہ نے "تاویل مختار الحدیث” (ص 392) میں اور ابنِ عدی نے "الکامل” (2/276) میں اور الخطیب نے التاریخ (8/229) میں ابو ہریرہ کی حدیث سے ، اور اس کی ترسیل (ھم تک پھنچنے )کا سلسلہ بھی بہت کمزور ہے۔

ابنِ قیم (اللہ ان پر رحم فرماۓ) نے فرمایا:

وہ احادیث جو بازار میں کھانے سے منع کرتی ہیں وہ سب باطل (جھوٹی) ہیں۔ عقیلی نے کہا: اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ ختم المنار المنیف (صفحہ 130)

الذہبی ( اللہ ان پر رحم فرماۓ) نے کہا: اس کے متعلق روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہے۔ سیارۃ العالم ان النبلاء (12/472) کا اختتامی اقتباس۔ رجوع کریں: https://shamela.ws/book/22669/6378

اسی طرح اسے عراقی نے تخریج الاحیا (ص 452) میں، البصیری نے "اتحاف الخیرہ” (4/321) میں اور البانی نے "الدع” میں ضعیف قرار دیا ہے۔ ‘ifa’ (2465)۔

ہوٹل، بازار یا ریستوران میں کھانے کے حکم میں جائز ھونے اور نا پسندیدہ ھونے میں فرق ہو سکتا ہے۔

ہوٹل یا بازار میں کھانے کا سب کے لیے ایک ہی حکم نہیں ہے۔ یہ مختلف بازاروں اور ان کے حالات، ممالک کی صورتحال اور ان کی تھذیبوں کے ساتھ مختلف ہوتی ہے۔ یہ بھی فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ جو کچھ لوگ کسی شخص سے عام طور پر قبول کرتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ دوسرا شخص اسے قبول نہ کرے اور وہ اپنی شخصیت کے لیے رسوا کا سبب سمجھے۔

امام غزالی ( اللہ ان پر رحم فرماۓ) نے فرمایا: بازار کا کھانا نرمی اور بعض لوگوں کے لیے آسانی کا باعث ہے، تو اس صورت میں یہ ٹھیک ہے۔ اور یہ کچھ لوگوں کی غیرت کے لۓ معمول کے رویے کے خلاف ہے، اس لیے اس صورت میں یہ ناپسندیدہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ ممالک کی عادتیں اور لوگوں کے حالات سے مختلف ہوتا ہے…

عام اصول کے مطابق جو شخص ہوٹلوں یا ریستورانوں میں کھاتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر یہ اس کے ملک کے لوگوں کا رواج ہو، یا اس جیسی شخصیت کے لیے قابل قبول ہے۔

جب کہ جو لوگ اس پر عمل نہیں کرتے، یا وہ لوگ (اہل المروعات) جو اپنے ملک کے رسم و رواج اور تھذیبی اصولوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں، اس سے ناراض ہوتے ہیں، تو وہ ایسی جگہوں میں داخل نہ ہوں، سوائے ضرورت کے، جیسا کہ اگر وہ سفر پر ہے، یا کوئی اہم کام ہے، یا اس جیسے۔

درحقیقت زیادہ تر ممالک میں، اس عمل کو اب غیرت مند لوگوں کے اعمال سے مختلف نہیں سمجھا جاتا، جو روایتی اور تھذیبی اصولوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔

نتیجہ

اگر کسی شخص کو ریستوران اور ہوٹل میں داخل ہونے کی ضرورت ہو تو ضروری ہے کہ وہ ان حرام چیزوں، فتنوں اور ایسے فتنوں سے باخبر ہوں جو ایسی جگہوں کے ارد گرد چھپ سکتے ہیں۔

اس کے باوجود بعض علماء نے کہا ہے کہ ایسی جگہوں میں داخل ہونا شرعی حکم کی وجہ سے نہیں بلکہ حرام چیزوں کے فتنوں اور فتنہ سے بچنے کے لیے جائز ہے۔

اس لیے بازاروں، ہوٹل اور ریستوران میں کھانے کی اسلام میں اجازت ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی فتنہ یا حرام شامل نہ ہو جیسے شراب یا خنزیر کا گوشت پیش کرنا، موسیقی بجانا، مردوں اور عورتوں کا میل ملاپ وغیرہ۔

واللہ اعلم (اور اللہ بہتر جانتا ہے)

كيا عذاب قبر حقيقت هے؟کیا قبر میں سزا دی جائے گی؟

جواب: الحمد لله

هاں،عذاب قبر حقيقت هےجوقران و حديث سے ثابت هے.اہلسنہ والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قبر اور برزخ والی زندگی (یعنی موت اور آخرت کے بیچ کا مرحله)میں سزا اور عذاب هو گا۔اس میں برکت اور خوشیاں بھی ہوں گی بندے کے اعمال کے حساب سے۔
دلیل:

1) قرآن سے:
آیت:” اور اب قبر میں دوزخ كى آگ ہے کہ وہ لوگ( ہر ) صبح اور شام اس كے سامنے لا کھڑے کئے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت برپا ہو گی( حكم ہو گا) فرعون کے لوگوں کو سخت سے سخت عذاب میں جھونک دو”؟( سورۃ غافر 40: 46)
( سورۃ غافر)

النّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَ يَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

الله كہتا ہے کہ فرعون کے لوگوں کو عذاب میں ڈالا جا رہا ہے صبح اور شام، حالانكه وہ لوگ مر چکے ہیں

ابن کثیر کہتے ہیں : یہ آیت کریمہ اہل السنه والجماعت کے عذاب قبر كے متعلق سب سے اہم دلیل ہے ۔اللہ کہتا ہے اور اب تو قبر میں دوزخ کی آگ ہےکہ وہ لوگ( ہر ) صبح اور شام اسکے سامنے لا کھڑے کئے جاتے ہیں ۔۔۔”[تفسیر ابن کثیر،4/82]

2) حديث:
عائشہ( رضی اللہ عنھا) زوجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے ” اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر، و اعوذ بک من فتنة المسيح الدجال واعوذبك من فتنة المحيا والممات ، اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم،( یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں دجال کے فتنے سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے، یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور نقصان سے )”( البخاری اور مسلم )

وفي حديث عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة:” اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر و أعوذ بك من فتنة المسيح الدجال واعوذبك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم( رواه البخاري ومسلم )

اس حدیث میں اہم پوائنٹ یہ ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے ۔یہ ایک دلیل ہے جو عذاب قبر کی تصدیق کرتی ہے ۔کسی نے عذاب قبر کا انکار نہیں کیا سوائے معتزلہ اور ایسے ہی کچھ گمراہ فرقے ۔

واللہ اعلم( اور اللہ سب سے بہتر جاننے والا ہے )